مسیحی طالب علم کو سکول میں واٹر کولر پر مشترکہ گلاس میں پانی پینے پر مسلم طالب علم نے تشدد سے مار ڈالا۔
مسیحی طالب علم کو سکول میں واٹر کولر پر مشترکہ گلاس میں پانی پینے پر مسلم طالب علم نے تشدد سے مار ڈالا۔
مسیحی طالب علم کو سکول میں واٹر کولر پر مشترکہ گلاس میں پانی پینے پر مسلم طالب علم نے تشدد سے مار ڈالا
بورے والا : ( جاگ مسیحی نیوز 20 ستمبر 2017 ) سولہ سالہ مسیحی طالب علم شیرون مسیح کو ہم جماعت مسلم طالب علم نے سکول میں واٹر کولر پر مشترکہ گلاس میں پانی پینے پر وحشیانہ تشدد کیا جس سے شیرون موقع پر ہی جان بحق ھو گیا۔
شیرون مسیح کی والدہ نے کہا ہے کہ ۔ سخت پیاس میں سکول میں واٹر کولر پر مشترکہ گلاس سے پانی پینے پر مسلم طالب علم نے ساتھیوں سے مل کر صرف میرے بیٹے کو ہی قتل نہیں کیا بلکہ ہم سب کو بھی مار ڈالا ہے۔ 3 ستمبر کو جب یہ واقعہ ھوا تو کلاس ٹیچر وہاں پر موجود نہیں تھا ۔ تاہم صورت حال سے گھبرا کر چار طالب علموں نے موٹر سائیکل رکشہ پر میرے بیٹے کو بورے والا تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لے کر گئے جہاں اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جس وقت دیگر طالب علم شیرون کو ہسپتال لے جا رہے تھے اس وقت سکول کے مرکزی گیٹ پر نہ سکیورٹی گارڈ موجود تھا اور نہ ہی کوئی چپڑاسی ۔ والدہ کے مطابق صبح 11 گیارہ بجے شیرون کو مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور 12 بجے اسے ہسپتال لے جایا گیا جبکہ سکول انتظامیہ دوپہر 1:30 بجے ہسپتال پہنچے ۔ ہمیں فون پر بتایا گیا کہ شیرون کا ایکسیڈنٹ ھو گیا ھے اور میں بھاگتی ھوئی ہسپتال پہنچی تو میرا بیٹا مر چکا تھا ۔
والدہ نے مذید کہا کہ ٹیچر کا پہلے دن سے ہی ان کے بیٹے کے ساتھ سخت رویہ تھا سکول یونیفارم نہ پہن کر آنے پر اسے پہلے ہی روز مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا ۔ ہم اپنا پیٹ کاٹ کر اسے پڑھا رہے تھے تاکہ وہ وکیل بننے کا خواب پورا کر سکے، اپنی بہنوں کی شادیاں کروا سکے۔
16 سالہ شیرون مسیح بورے والا کے چک نمبر 461 / ای بی کے کا رہائشی تھا جو گورنمنٹ ایم سی ماڈل سکول میں نویں جماعت کے طالب علم تھا اور جس دن وہ ہلاک ہوا سکول میں اس کا تیسرا دن تھا۔ پہلا دن اس نے یونیفارم نہ ہونے کی وجہ سے بھی ٹیچر نے سزا دی جبکہ دوسرے دن وہ سکول ہی نہیں گیا تھا کیونکہ پہلے دن کے واقعے کے بعد اس نے سکول جانے سے انکار کر دیا تھا۔
شیرون مسیح کی والدہ نے مذید بتایا کہ شیرون 'جب گھر واپس آیا تو اس نے کہا وہ سکول دوبارہ نہیں جانا چاہتا کیونکہ لڑکے اسے تنگ کرتے ہیں۔ اسے قتل کرنے والا طالب علم اسے سکول میں واٹر کولر پر مشترکہ گلاس سے پانی نہیں پینے دیتا کیونکہ وہ مسیحی ہے۔ ہم اتنے شوق سے اسے پڑھا رہے تھے۔ تینوں وقت کی روٹی بھی کبھی کبھی نہیں کھاتے تھے تاکہ فیس ادا کر سکیں۔ اب سوچتی ہوں کاش اس دن اسے سکول نہ بھیجتی۔'
شیرون مسیح کا خاندان دو کمروں کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ وہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور اس کے والد الیاس مسیح دیہاڑی دار مزدور ہیں اور روزانہ پانچ سے چھ سو روپے بمشکل کماتے ہیں۔
سولہ سالہ مسیحی طالب علم شیرون مسیح گورنمنٹ ایم سی ماڈل سکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اور گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر ہے۔ 68 بچوں کی جماعت میں شیرون کا صرف ایک ہی دوست تھا۔ 'شیرون مسیح کلاس سے باہر جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک مسلم طالب علم جو واٹر کولر گلاس میں پانی پینے پر شیرون سے عدوات رکھتا تھا نے سامنے ٹانگیں رکھ کر اس کا راستہ روکا جس کے بعد جھگڑا شروع ہو گیا۔'کمرا جماعت میں اس وقت کوئی استاد موجود نہیں تھا اور باقی بچے اس واقعے کو مذاق سمجھ کر ہنستے رہے ، کسی نے ملزم کو نہیں روکا۔ شیرون مسیح کے دوست نے اپنی سی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔
ملزم آٹھ سے دس منٹ تک شیرون مسیح کو گھونسے اور لاتیں مارتا رہا جس کے بعد وہ بےہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔ پانچ بچے خود ہی اسے ہسپتال لے کر گئے مگر وہاں پہنچنے سے پہلے ہی شیرون مسیح دم توڑ چکا تھا۔
شیرون کی والدہ نے میڈیا کو بتایا کہ 'مجھے سکول سے فون آیا کہ شیرون کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے۔ میں بھاگتی بھاگتی ہسپتال پہنچی تو میں نے اپنے بچے کا مرا ہوا منہ دیکھا۔ اتنا بڑا سکول ہے ٹیچرز کو کیسے پتہ نہیں چلا کہ بچے کا خون ہو گیا ہے؟ جب شیرون مسیح کا قتل ھو چکا تھا تو ڈر کے مارے دیگر طالب علم اکیلے خود ہی میرے بیٹے کو ہسپتال لے کر گئے۔'
اس واقعے کے بعد پولیس نے ملزم کو حراست میں لیا ہے اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتلِ عمد کا پرچہ کاٹا گیا ہے جبکہ معاملے کی تحقیقات کے لیے تین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شیرون مسیح کے جسم پر بظاہر کوئی نشانات نہیں تاہم ان کی موت گھونسے اور لاتیں لگنے سے ہوئی ہے۔
سکول کی انتظامیہ نے کوتاہی برتنے پر پانچ اساتذہ کو معطل بھی کیا ہے تاہم اس ہلاکت کے حوالے سے اس کی بےحسی واضح تھی۔ انتظامیہ کے ایک شخص نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بچے بڑے پرامن ہیں۔ اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ 2600 طالب علموں میں 35 بچے مسیحی ہیں۔ بچوں میں لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ دراصل شیرون مسیح کمزور بہت تھا۔'
وہاڑی کے ڈی پی او عمر سعید کا بھی کچھ ایسا ہی موقف تھا۔ انھوں نے کہا کہ 'فون کی سکرین ٹوٹنے پر جھگڑا ہوا اور یہ تاثر غلط ہے کہ ایک سے زیادہ بچوں نے شیرون مسیح پر حملہ کیا لیکن ہم اس بات کو نظرانداز نہیں کر سکتے کہ ملزم کے قتل کرنے کے پیچھے دیگر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔'
مقتول شیرون مسیح کے والد الیاس مسیح اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ ہلاکت ایک معمولی جھگڑے کا نتیجہ تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قتل مذہب کی ہی بنیاد پر ہوا ہے۔ اور ایف آئی آر کچھ اور طرح سے کاٹی گئی ہے ۔ جبکہ دو دن میں ایسی کیا دشمنی پیدا ہو گئی تھی کہ ہمارے بچے کو اس نے جان سے ہی مار دیا۔ ہمیں تو اس نے جیتے جی ہی مار دیا ہے۔ میرا سب سے بڑا بیٹا، میرا سہارا ہی چھین لیا۔ ہمیں انصاف چاہیے۔'