13 سالہ مسیحی بچی آروز کا اغوا، جبری تبدیلی مذہب و 44 سالہ مسلم شخص سے جبری شادی کے خلاف مسیحی عوام کے مظاہرے۔

اندرون بیرون ممالک مظاہرین میں عوام سراپا احتجاج، اسلامی جبر نا منظور۔   

جاگ مسیحی نیوز 28 اکتوبر 2020 

پاکستان کے مسیحی، ہندو اور دیگر مذہبی اقلیتی برادریاں اپنی لڑکیوں کے اغوا اور مذہب کی جبری تبدیلی کی شکایت ایک طویل عرصے سے کرتی آ رہی ہیں۔

کراچی: تازہ ترین واقعہ ایک 13 سالہ مسیحی بچی آروز راجہ کا ہے، جس کے  والدین کراچی کے رہائشی ہیں، آروز کی والدہ کے مطابق وہ اور ان کا شوہر ملازمت پر گئے ہوئے تھے، اور گھر سے اُن کی عدم موجودگی میں اُن کی بیٹی لاپتہ ہو گئی، وہ ڈھونڈتے رہے، لیکن پتہ نہیں چلا، اور چند روز بعد انھیں پولیس نے کاغذات پکڑا دیے اور آگاہ کیا کہ لڑکی کا مذہب تبدیل ہو گیا ہے، اور اس نے نکاح بھی کر لیا ہے۔

آروز کے والدین کے مطابق ابھی اُن کی بیٹی کی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی تھی۔

آروز کی والدہ نے کہا ہے کہ اُن کی بیٹی نابالغ ہے، اور اسے مبینہ طور پر ورغلا کر لے جانے والے مسلم شخص کی عمر 44 سال سے زائد ہے۔

انہوں نے کہا ’میری بیٹی کی عمر 13 برس ہے، گھر میں وہ گڑیا سے کھیلتی تھی، میری بیٹی ابھی نابالغ ہے لیکن یہ 44 سالہ شیطان آدمی نا جانے کب سے اپنے ناپاک منصوبے بنا رہا تھا، وہ بچوں کو ٹافیاں اور آئس کریم لے کر دیتا تھا، لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ایک دن یہ ہماری بچی کو اغوا کر کے لے جائے گا۔‘

آروز کے والدین کراچی کینٹ ریلوے کالونی کے کوارٹرز میں رہتے ہیں، ان کے پاس اپنی بیٹی کی پیدائش، نادرا اور سکول کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے جس کے مطابق  لڑکی کی عمر 13 سال ہے،  تاہم اغوا کار کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے  لڑکی کے جعلی حلف نامے پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کی عمر 18 سال ہے، اور اس نے قانونی اور آئینی طور پر حاصل حق کے مطابق نکاح کیا ہے۔

پاکستان میں سرکاری طور پر مسیحی آبادی کا تخمینہ 30 سے 35 لاکھ کے درمیان لگایا جاتا ہے، لیکن مسیحی تنظیموں اور دیگر شواہد ریکارڈ کے مطابق مسیحی آبادی ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے کراچی کے علاوہ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں مسیحی برادری کافی تعداد میں آباد ہے۔

پولیس اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کا غیر منصفانہ رویہ اس لیے بھی ہوتا ہے  کہ آخر وہ بھی تو مسلمان ہی ہیں 

آروز کی والدہ گھروں میں کام کاج کرتی ہے، اور باپ ایک ڈرائیور ہے بیٹی کے اغوا کے بعد انہیں تلاش کرنے میں دونوں اپنی اپنی ملازمت بھی گنوا بیٹھے ہیں اور اب وہ سارا دن گھر میں رہتے ہیں۔ 

آروز کے باپ کا کہنا ہے کہ وہ فریئر تھانے میں ایف آئی آر کے لیے گئے تھے لیکن پولیس نے کہا کہ یہ اینٹی وائلینٹ کرائم سیل کا مقدمہ ہے اور انھیں گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر کا رستہ دکھا دیا گیا۔ 

آروز کے باپ کے مطابق گارڈن پولیس نے کہا کہ واقعے کے دو چشم دید گواہ اور شناختی کارڈ لے کر آؤ۔

’ہم نے کہا کہ سارے لوگ کام پر گئے ہوئے تھے، کسی نے نہیں دیکھا، ہم چشم دید گواہ کہاں سے لے کر آئیں۔ جو مشتبہ شخص ہے وہ گھر میں موجود نہیں ہے، اس کا فون نمبر بند ہے اور اس کی بائیک بھی موجود نہیں، تاہم بڑی مشکل سے مقدمہ تو درج ہو گیا لیکن مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ایف آئی آر کے اگلے روز پولیس نے بلایا اور نکاح نامہ اور تبدیلی مذہبی کا سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں تھما دیا۔

’ہمیں ایک خاتون وکیل نے کہا کہ عدالت سے مدد لیتے ہیں، ہمیں عدالت میں پیش کیا گیا، وہاں بیٹی کی عمر کا سرٹیفیکٹ بھی دکھایا، جج نے کہا کہ درخواست جمع کروائیں، وکیل خاتون نے کہا کہ پچاس ہزار روپے فیس دو میں نے کہا کہ میں اتنی نہیں دے سکتا، جس کے بعد انھوں نے 20 ہزار روپے مانگے، میں نے کہا کہ کسی سے سود پر لاتا ہوں، لیکن میں مایوس ہو چکا تھا۔‘

تازہ ترین اس افسوسناک واقعہ کے خلاف ملک بھر سے مسیحی عوام نے پزور مذمت کرتے ہوے مظاہرے کیے ہیں اور یہ سلسلہ بیرون ممالک  بسنے والے پاکستانی مسیحییوں تک جا پہنچا ہے جو بھی احتجاج اور مظاہروں کا حصہ بن رہے ہیں۔ 

مظاہرین نے بینرز پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں جن پر مختلف نعرے درج ہیں "جبری تبدیلی مذہب نا منظور"  "اسلامی جبر بند کرو"  "اقلیتی نابالغ بچیوں کی اغوا کاریاں بند کرو" "تیرہ سالہ مسیحی بچی کو آزاد کراو"۔ 

حصول انصاف کے لیے آروز کے ماں باپ اور مسیحی عوام نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی ہے، جن کو پہلے ہی اتنی فکر ملک کی نہیں جتنی اپنے مذہب کی ہے شاید اسی لیے وہ بغیر داڑھی کے بغیر علم کے اپنے مذہب کے حق میں واویلہ کرنے میں علما اسلام کی طرح کے بیانات کے حوض میں کود پڑھتے ہیں، بہرحال دیکھتے ہیں اس تیرہ سالہ بچی کے ماں باپ کو کیا انصاف ملتا ہے؟۔  

گزشتہ سال پاکستان کے ایک آرچ بشپ نے انکشاف کیا تھا کہ ریکارڈ رکھنے والے اداروں سے معلوم ہوا ہے کہ پنجاب میں 700 لڑکیوں کے اغوا و جبری تبدیلی مذہب کے واقعات ہوے ہیں۔  

مسیحی بچیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے 80/90 فیصد واقعات صوبہ پنجاب سے ہیں، اور اسی طرح صوبہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کے واقعات ہو رہے ہیں، لیکن اب صوبہ سندھ میں مسیحی لڑکیوں کے بھی واقعات نظر آ رہے، جس ثابت ہو رہا  ہے واقعات کم نہیں بلکہ بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کی روک تھام کرنے والے ادارے یا تو مخلص نہیں یا پھر بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔  

آخر کب تک پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا؟ 

اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں باتوں باتوں میں تو بہت کچھ کہا جاتا ہے بڑے لالی پاپ دیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر پاکستان میں مسلم مذہبی و سیاسی رہنما خود ایسے واقعات میں ملزمان کی پشت پناہی اور سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے حق و انصاف کیا ہے، بس وہ اپنا مفاد اور اسلام و مسلمان دیکھتے ہیں، اور ایسے افراد ملک بھر میں ہر جگہ موجود ہیں اور اسلامی مذہبی کارڈ کھیلنا ان کا ایک وطیرہ ہے، اور جو لوگ واقعی امن پسند اور اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں وہ اعداد شمار میں کم ہیں۔  

پاکستان میں اقلیتوں پر ڈھاے جانے والے مظالم پر دوغلی پالیسی کا ٹرینڈ عام پایا جاتا ہے، مسلم علما دین اقلیتوں کے خلاف مسلم ملزمان کی ہر طرح سے بھرپور مدد کر رہے ہوتے ہیں اس کو بچانے کے لیے وہ بڑے بڑے خطرناک بیان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھانوں پر دھاوا بھی بول دیتے ہیں، اور دوسری جانب وہ میڈیا پر بیان دے رہے ہوتے ہیں کہ اسلام اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ اور حقوق کا علمبردار ہے، تاکہ دنیا ان کا اصلی چہرہ دیکھ نہ سکے،  محاورا شاید اسی لیے پیدا ہوا ہے" اُتوُں بابا تسبھی تے وچوں بابا کسبی" 

اسلامی تعلیم کے مطابق مسلمان کسی بھی غیر مسلم عورت یا مرد  سے شادی کر سکتا ہے بشرط وہ عورت یا مرد پہلے اسلام قبول کرے، اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان عورت یا مرد اسلام چھوڑ کر کسی غیر مسلم سے شادی کرتا ہے تو وہ مرتد ہو گیا ہے، اور مسلمانوں کے نزیک وہ عورت یا مرد واجب القتل ہے، اس کا سرقلم کردیا جاے یا سنگسار کر کے مار دیا جاے، غور کرنے کی بات ہے کہ یہ اسلامی  اصول کیسے "انسانی برابری" کی بنیاد پر دوسروں ( اقلیتوں) کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے جس میں انصاف و برداشت نام کی کوئی چیز سرے سے ہی نہیں پائی جاتی، بلکہ اُلٹا کُٹ کُٹ کے جبر بھرا ہے۔     

شاید اسی لیے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے لیے بہتری کے کوئی امکان نہیں، البتہ اقلیتوں کو خود جاگنا اور اُٹھنا ہو گا، اپنی بچیوں کی عزتیں بچانے میں خود اقدام اٹھانے ہوں گے،  ورنہ مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر اقلیتی بچییوں کے ساتھ ظلم کا  یہ سلسلہ دن بدن تیز ہی ہوتا جاے گا۔ 

یہ وہ تمام کاغذات جن کا ذکر آروز کے والد نے کیا ہے  



Comments
* The email will not be published on the website.
I BUILT MY SITE FOR FREE USING