جسٹس اے آر کارنیلئس مسیحی مذہب سے تھے وہ ایماندار ھونے کی وجہ سے مشہور تھے ۔ وفاقی وزیر
جسٹس اے آر کارنیلئس مسیحی مذہب سے تھے وہ ایماندار ھونے کی وجہ سے مشہور تھے ۔ وفاقی وزیر
جسٹس اے آر کارنیلئس مسیحی مذہب سے تھے ۔ وہ فیصلے بغیر کسی خوف کے کرتے تھے اور وہ ایماندار ھونے کی وجہ سے مشہور تھے ۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف
اسلام آباد ( جاگ مسیحی نیوز ۔ 28 دسمبر2018ء) وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹرڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ جسٹس اے آر کارنیلئس ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ قانون کے علمبردار تھے، ملزم کو سنے بغیر اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا جا سکتا ہے، احتساب کا عمل اسی طرح چلنا چاہیے ، حکومت ہر وہ اقدام کرے گی جس سے قانون ا نصاف کی سر بلندی ہو۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو اسلامی نظریاتی کونسل اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیزکے زیر اہتمام ''جسٹس اے آر کارنیلئس کی پاکستان کے نظام عدل میں خدمات اور کارہائے نمایاں''کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سینٹ میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر راجہ ظفرالحق، چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈٖاکٹر قبلہ ایاز،سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
وفاقی وزیر قانون و انصاف نے کہا کہ جسٹس اے آر کارنیلئس قانون کے علمبردار اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس صاحب مسیحی مذہب کے پیروکار ہونے کے باوجود اسلامی قوانین کو سمجھتے تھے جب وہ ملک سے باہر جاتے تو وہاں کی کمیونٹی کو بتایا کرتے تھے کہ اسلامی نظام عدل کیسا ہے کیونکہ اس میں اسلامی سزائیں ہونے کی وجہ سے جرائم کی شرح کم ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس اے آر کارنیلئس کی شخصیت کی اہم بات یہ تھی کہ وہ فیصلے بغیر کسی خوف کے کرتے تھے اس لیے وہ اپنی ایمانداری کی وجہ سے مشہور تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں جسٹس صاحب کے بعض فیصلوں اور نظریات سے اختلاف بھی رکھتا ہوں جس کا مجھے حق ہے۔ اس موقع پر انہوں نے جسٹس اے آر کارنیلئس کے ماضی میں کیے گئے کچھ فیصلوں پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔
بعدازاں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ ملزم کو سنے بغیر اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ وزارت داخلہ اور ایف آئی اے جے آئی ٹی میں شامل افراد کی لسٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل اسی طرح چلنا چاہیے اور حکومت ہر وہ اقدام کرے گی جس میں قانون و انصاف کی سربلندی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کو اپنا دفاع کرنے کا پورا پورا حق ہے، حکومتی نمائندوں کے خلاف بھی اگر ثبوت ملیں گے تو ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ یا دوسرے ادارے ای سی ایل میں نام تب ڈالنے کی سفارش کرتے ہیں جب کسی پر شبہ ہو کہ یہ ملک سے باہر جانے کے بعد واپس نہیں آئے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف کی واپسی کے بارے میں میرے سامنے کبھی کابینہ میں کوئی بات زیربحث نہیں آئی۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ جسٹس اے آر کارنیلئس ایک محب وطن پاکستانی شخصیت تھے۔
وہ ہمیشہ اسلامی نظریات اور عقائد کی عزت کرتے تھے اسی وجہ سے ان کی گفتگو میں قرآن و سنت کا ذکر ملتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بڑی منظم شخصیت کے مالک تھے اور وہ مقدمات کو احسن طریقے سے نمٹانے کا فن جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی شخصیت کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ جتنا عرصہ بطور جج کام کرتے رہے کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آئے بلکہ حق اور سچ پر فیصلے کیے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس اے آر کارنیلئس ایسا نظام چاہتے تھے جس سے عام طبقے سے بڑے آدمی پیدا ہو سکیں اور وہ مادری زبان میں تعلیم کے فروغ کے خواہاں تھے۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ آج جسٹس کارنیلئس کے حوالے سے تقریب ہمارے ادارے میں منعقد ہو رہی ہے۔
انہوں نے ہمیشہ قانون و انصاف کی برتری کے لیے کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا مطالبہ ہے کہ جسٹس صاحب کی کتاب کو دوبارہ شائع کیا جائے تاکہ آئندہ نسل کو ان کی شخصیت سے آشنا کرایا جا سکے۔ اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر خالد رحمن نے کہا کہ ہمارے آج کے یہاں اکٹھا ہونے کا مقصد جسٹس اے آر کارنیلئس کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں وہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کے بہترین چیف جسٹس تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہ ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، ہمیں خوشی ہوتی ہے جب بین الاقوامی سطح پر پاکستانیوں کی تعریف کی جائے اور ان کی محنت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے ایک ایسی رپورٹ بھی شائع ہوتی ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کون سی قوم زیادہ مطمئن اور خوش ہے، ہمارے لیے قابل قدر بات یہ ہے کہ 2018ء کی رپورٹ میں پاکستان کا 75واں نمبر ہے جبکہ ایشیاء میں پاکستان ٹاپ لسٹ میں شامل ہے۔
جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت 133ویں، بھوٹان 97، نیپال 101، بنگلہ دیش 115 اور سری لنکا 116ویں نمبر پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ درجہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ ہماری قوم کتنی باصلاحیت اور حوصلہ مند ہے۔اس موقع پر سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان نے کہا کہ میرا ذاتی تعلق جسٹس اے آر کارنیلئس سے 14 سال تک رہا، میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ ان سے سیکھا کیونکہ وہ انسانیت اور انصاف ان کی ترجیحات میں شامل تھا۔ تقریب سے اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر اکرام الحق نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران اور دیگر شعبوں سے وابستہ شخصیات نے بھی شرکت کی۔