سری لنکا کولمبو ( جاگ مسیحی نیوز 22 اپریل 2019 Jaag Masihi News
شہید ہونے والوں میں بیشتر سری لنکن شہری تھے جن میں مسیحیوں کی بڑی تعداد شامل ہے جو ایسٹر کی تقریبات میں شریک تھے
سری لنکا میں اتوار کو مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر ہونے والے دھماکوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد 290 تک پہنچ گئی ہے جن میں 35 غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
ان دھماکوں میں 500 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں اس لیے شہادتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سری لنکا میں حکام نے کہا ہے کہ اتوار کو ہونے والے یہ حملے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کی مدد سے کیے گئے ہیں۔ حکومت نے ان حملوں کے لیے ایک غیر معروف مقامی جہادی گروپ ’قومی توحید جماعت‘ کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ پولیس نے ان حملوں کے سلسلے میں 24 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
حکومت نے کہا ہے کہ پیر کی رات سے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ ہو جائے گا۔ دریں اثنا ملک کے دارالحکومت کولمبو میں پیر کو ایک گرجا گھر کے قریب ایک اور دھماکہ ہوا۔ اس حملے میں فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
سری لنکا میں کابینہ کے ترجمان رجیتھا سینارتنے نے کہا کہ ’ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ یہ حملہ ایسے گروپ نے کیا جو صرف اس ملک تک محدود ہے۔‘
’اس میں بین الاقوامی نیٹ ورک شامل تھا جس کی مدد کے بغیر یہ حملے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔‘
اتوار کی صبح ہونے والے ان دھماکوں میں کولمبو سمیت تین شہروں میں تین ہوٹلوں اور تین گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ سنہ 2009 میں سری لنکا میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ملک میں دہشت گردی کی سب سے بڑی اور مہلک کارروائی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ سات خودکش حملہ آوروں نے یہ دھماکے کیے۔
دھماکوں کے بعد ملک بھر میں جو کرفیو نافذ کیا گیا تھا اسے پیر کی صبح چھ بجے ختم کر دیا گیا ہے تاہم کولمبو میں سکول اور بازارِ حصص بند ہیں۔
اتوار کو رات گئے سری لنکا کے وزیرِاعظم رانیل وکرماسنگھے نے کہا کہ ملک میں سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو ممکنہ حملوں کے بارے میں ’اطلاع‘ تھی۔
ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ ملک میں افواہوں کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا تک رسائی بھی عارضی طور پر بند کر دی گئی ہے اور واٹس ایپ اور فیس بک کے استعمال کی سہولت اکثر افراد کو میسر نہیں۔
سری لنکا میں یکے بعد دیگرے متعدد بم دھماکوں میں کم از کم 290 افراد شہید ہوئے۔
حملے کب شروع ہوئے؟
سب سے پہلے دھماکوں کی اطلاع اتوار کی صبح نو بجے کے قریب ملی جب کولمبو اور اس کے علاوہ دیگر دو شہروں، نیگمبو اور بٹّی کالؤا میں تین گرجا گھروں میں دھماکے ہوئے۔
اس کے علاوہ دارالحکومت کولمبو میں تین ہوٹلوں دی شینگریلا، سینامن گرانڈ اور کنگز بری کو نشانہ بنایا گيا۔
پولیس نے جب ان دھماکوں کے ذمہ داران کی تلاش شروع کی تو مزید دو دھماکوں کی اطلاع ملی۔
ان میں سے ایک جنوبی کولمبو میں چڑیا گھر کے نزدیک ہوا جبکہ دوسرا دیماتاگوڈا نامی علاقے میں پولیس کے ایک چھاپے کے دوران ہوا جس میں تین پولیس اہلکار بھی شہید ہوے۔
اتوار کی شب سری لنکن فضائیہ نے کہا ہے کہ کولمبو کے ایئرپورٹ کے قریب نصب دھماکہ خیز مواد برآمد کر کے ناکارہ بنایا گیا ہے۔
فضائیہ کے ترجمان گیہان سنیوارتنے نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ’پلاسٹک کا ایک چھ فٹ لمبا پائپ ملا جس میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق اب تک دھماکوں میں شہید ہونے والوں کی کل تعداد 290 تک پہنچ چکی ہے اور پانچ سو افراد زخمی ہیں۔
ان حملوں میں شہید ہونے والوں میں بیشتر سری لنکن شہری تھے جن میں مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے جو ایسٹر کی تقریبات میں شریک تھے۔
سری لنکن وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کے علاوہ 35 غیرملکیوں کی لاشیں بھی کولمبو کے مردہ خانے میں ہیں جن کی شناخت کا عمل جاری ہے۔
دارالحکومت کولمبو میں تین ہوٹلوں دی شینگریلا، سینامن گرانڈ اور کنگز بری کو بھی نشانہ بنایا گيا
شہید ہونے والے غیرملکیوں میں چھ انڈین باشندے جبکہ کم از کم پانچ برطانوی شہری ہیں جن میں سے دو کے پاس امریکی شہریت بھی تھی۔
برطانوی رکن پارلیمان ٹیولپ صدق نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں بتایا کہ ان کا ایک رشتہ دار بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ سری لنکن حکام کے مطابق ڈنمارک کے تین جبکہ پرتگال اور ہالینڈ کا ایک، ایک شہری بھی شہید ہوا ہے۔
آسٹریلیا کے وزیراعظم سکاٹ موریسن نے تصدیق کی ہے کہ دھماکوں میں دو آسٹریلوی بھی شہید ہوے ہیں جن کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا اور وہ سری لنکا میں رہائش پذیر تھے۔
ترک خبر رساں ادارے اناطولو نے دو ترک انجینیئرز کی شہادت کی خبر بھی دی ہے جبکہ چینی اخبار چائنا ڈیلی کے مطابق چین کے دو شہری جبکہ جاپانی حکومت کے ذرائع کے مطابق ایک جاپانی شہری بھی شہید ہوئے ہیں۔
افواہوں پر قابو پانے کی کوشش
سری لنکا میں حکام اس بارے میں قیاس آرائیوں اور افواہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ صرف سرکاری سطح پر فراہم کی جانے والی معلومات پر ہی یقین کریں۔
ہر پیغام جو جاری ہو رہا ہے اس میں شہریوں سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ اس سانحے کا سوگ منائیں نہ کہ الزام تراشی کریں۔
بہت سے سری لنکن باشندوں کو ان حملوں نے خانہ جنگی کے دوران ہونے والے تشدد کی یاد دلا دی ہے لیکن بہت سے لوگوں نے اس قسم کی مربوط دہشت گردی کا کبھی سامنا نہیں کیا جس کا سامنا سری لنکا کو اتوار کو کرنا پڑا ہے۔
حکومت کے مطابق اس نے اتوار کے واقعات کے بعد ملک میں سوشل میڈیا کا استعمال محدود کر دیا ہے اور اس کی جانب سے امن برقرار رکھنے کے بار بار کیے جانے والے مطالبات یقیناً ایسے حالات کو قابو کرنے کی کوشش ہیں جہاں لوگوں کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔
تحقیقات جاری
اتوار کو ان دھماکوں کے بعد پولیس نے اب تک 24 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں دھماکوں میں سے کچھ خودکش حملے بھی تھے۔
اتوار کی شب ایک پریس کانفرنس میں سری لنکا کے وزیراعظم رانیل وکرماسنگھے کا کہنا تھا کہ اس امر کی تحقیقات ہونی چاہییں کہ ممکنہ حملوں کے بارے میں انٹیلیجنس رپورٹس پر کیوں کارروائی نہیں کی گئی۔
انھوں نے کہا نہ ہی انھیں اور نہ ہی ان کے کسی وزیر کو ممکنہ حملوں کے بارے میں اطلاعات سے آگاہ کیا گیا تھا۔
تاہم انھوں نے کہا کہ اس وقت ترجیح حملہ آوروں کی گرفتاری ہے۔
حکام نے عوام سے کہا ہے کہ وہ پرسکون رہیں اور ان دھماکوں کی تحقیقات جاری ہیں۔ سری لنکا کے وزیرِ دفاع روان وجےوردھنے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان دھماکوں کے پیچھے کسی ایک گروہ کا ہاتھ لگتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم 'ہر اس انتہاپسند گروپ کے خلاف تمام ضروری کارروائی کریں گے جو ہمارے ملک میں کام کر رہا ہے۔ ہم ان کے پیچھے جائیں گے چاہے وہ جس بھی مذہبی انتہا پسندی کے پیروکار ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ جو بھی مجرم اس بدقسمت دہشت گرد کارروائی میں ملوث ہیں ہم انھیں جتنا جلد ممکن ہو گرفتار کر لیں گے۔